کربلا ۔۔۔فعالیت کے ہمراہ بصیرت

نوع مقاله : مقاله پژوهشی

نویسنده

دانشجوی دکتری فقه تربیتی جامعه المصطفی

چکیده

نادانی اور جہالت کو ہر عقلمند انسان ناپسند کرتا ہے۔ جہالت کی شدّت تعصّب پر منحصر ہوتی ہے، کوئی بھی شخص جتنا زیادہ متعصب اور ہٹ دھرم ہوتا ہے، اس کی جہالت بھی اتنی ہی وحشتناک اور ہیبت ناک ہوتی ہے۔ میدانِ عمل میں جاہل دو حالتوں سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو جاہل، عالم سے ٹکراتا ہے اور یا پھر جاہل، جاہل سے پنجہ ازمائی کرتا ہے۔ عقلِ سلیم کا یہ آخری فیصلہ ہے کہ میدانِ جنگ میں جاہل، جاہل کے ساتھ تو ٹکرا سکتا ہے، لیکن کبھی بھی عالمِ حقیقی، عالمِِ حقیقی کے ساتھ نہیں لڑ سکتا۔1۔
اگر کسی کو میدانِ جنگ میں دونوں طرف حق ہی صف آرا نظر آرہا ہو تو ایسا شخص یقیناً حق کی شناخت کھوچکا ہے اور اسے چاہیئے کہ وہ دوبارہ حق کو پہچانے، تاکہ میدانِ جنگ میں حقیقی اہلِ حق اور مصنوعی اہلِ حق کے درمیان فرق کرسکے۔ إنَّ دِینَ اللَّهِ لَا یُعْرَفُ بِالرِّجَالِ بَلْ بِآیَةِ الْحَقِّ وَ اعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرِفْ أَهْلَهُ۔۲۔میدانِ جنگ میں کودنے سے پہلے انسان کے لئے حق اور باطل کی صحیح شناخت ضروری ہے۔ یہاں پر یہ بھی بتاتے چلیں کہ جتنی ضروری حق و باطل کی شناخت ہے، اتنا ہی ضروری حق اور باطل کے درمیان فرق رکھنا بھی ہے۔ ۳ وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ۔۔۔ ۔ اگر کوئی شخص حق کو پہچانے اور حق کو باطل سے الگ نہ کرے تو گویا اس نے حق کو پہچانا ہی نہیں۔
انسان کو حق و باطل کی شناخت کے لئے غور و فکر اور حق کو باطل سے جدا کرنے کے لئے جرات و ہمّت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اللہ کے نزدیک بھی بدترین لوگ وہی ہیں جو غور و فکر سے کام نہیں لیتے۔ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذینَ لا یَعْقِلُونَ۔ ۴۔  اگر انسان غور و فکر سے کام نہ لے تو وہ حق و باطل کے معیارات اپنے خیالات اور تصوّرات کے مطابق طے کر لیتا ہے اور پھر انہی من گھڑت تصوّرات کو اپنا عقیدہ بنا لیتا ہے۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی غلط عقائد اور تصوّرات و توہمّات کا وجود ہے، ان کا علاج صرف اور صرف غور و فکر میں پنہاں ہے جب مسلمان غور و فکر کے راستے پر چل پڑے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ غور و فکر سے اسے حق و باطل کی شناخت تو حاصل ہوسکتی ہے، لیکن حق کو باطل سے جدا کرنے کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔۵ ۔یا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقاناً ۔یہ تقویٰ ہی ہے جو انسان کو حق کی نصرت اور باطل کی مخالفت پر اکساتا ہے۔ تقویٰ اگر غور و فکر کے ہمراہ ہو تو بصیرت کہلاتا ہے اور اگر غور و فکر سے جدا ہوجائے تو یہی تقویٰ حق کے لئے مضر اور باطل کے لئے نفع بخش بن جاتا ہے اور ایسا متقی بظاہر متقی نظر آتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں متقی نہیں ہوتا۔حقیقی تقویٰ وہی ہوتا ہے جو بصیرت کے ہمراہ ہو اور حقیقی متّقی وہی ہوتا ہے جو بصیر ہو۔