مقدمہ: اس مقالہ میں مسئلہ فدک کو اہل سنت و اہل تشیع کے معتبر کتب اور تاریخ کے مستند کتابوں کی روشنی میں تاریخی لحاظ سے تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔فدک کو فدک اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس سر زمین کو فدک بن حام نے آباد کیا تھا۔قال الزجاجی: سمیت بفدک بن حام و کان اول من نزلھا (۱)چونکہ سب سے پہلے فدک بن حام اس جگہ آکر ٹھرا اور اس نے اس جگہ کو آباد کیا اس لئے اس کا نام فدک پڑگیا۔فدک خیبر کے نزدیک ایک خوبصورت بستی جو آب و ہوا کے اعتبار سے سر سبز و شاداب اور قابل دید تھی، اس کی زمین زرخیز تھی، پہاڑون کا سینہ چیر کر پھوٹنے والے چشموں نے اسے کچھ زیادہ ہی حیات بخش بنا دیا تھا، جھرنوں نے پیدا ہونے والی آوازیں کسی خاص راز کی طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ اسی وجہ سے فدک کی سرسبز و شادابی پورے علاقے میں مشہور تھی،مدینہ سے اسکا فاصلہ ۱۴۰ کلو میٹر تھا اور خیبر سے ایک منزل کے فاصلے پر واقع تھا، اس وقت یہ حجاز کے علاقوں میں یہودیوں کا مرکز شمار ہوتا تھا۔ فدک حجاز میں ایک بستی تھی جو مدینہ سے دو یا تین روز کی مسافت پر واقع تھی،اس میں چشموں کی روانی اور کھجوروں کی فراوانی تھی۔یہ وہی فدک ہے جس کے متعلق جناب فاطمہ زہرا (س) نے ابو بکر سے فرمایا تھا کہ یہ فدک میرے باب کی خاص ملکیت ہے جسے انہوں نے اپنی زندگی میں عطا کر دیا تھا اور اس پر ابو بکر نے شہزادی سے گواہ طلب کئے تھے۔(۲)