انسان کی دوسری خصوصیات کی طرح جنسی غریزے اور خواہشات نفسانی کو بھی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے جنسی تعلیم و تربیت کا مطلب جنسی غریزہ کی رشد اور نشوونما اس طرح سے کرنا ہے کہ عفت جنسی اور صحت جنسی دونوں حاصل ہو۔ دینی نقطہ نگاہ سےجنسی تعلیم و تربیت بلوغت سے قبل اور تقریبا انسان کی پیدائش سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت ،تعلیم و تربیت کا ایک اہم اور حساس حصہ ہے۔ کیونکہ یہ بچے کی مستقبل میں سعادت اور شقاوت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔بچوں کی جنسی تربیت کر کے بچوں پر ہونے والے جنسی تشدد کا بڑی حدتک خاتمہ کرسکتاہے اور درندہ صفت افراد کو آسانی کے ساتھ کیفر کردار تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ والدین بچوں کی جنسی تربیت کرکے یہ شعور دیں کہ ان کے جسم کے کچھ ذاتی حصوں کو کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا ہے۔ کسی بھی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے سکھانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے اسباب کی تعلیم،غیر شرعی طریقہ سے جنسی تعلقات کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں انہیں بتانا یہ سب درحقیقت تربیت جنسی ہے۔
متعدد قرآنی اور احادیثی شواہد کے مطابق والدین پر لازم ہے کہ وہ اس طرح کے تدابیر کا اہتمام کریں کہ ان کے بچے بالغ ہونے کے بعد مذہبی قوانین کے پابند ہوں اور شرعی احکامات کی مخالفت نہ کریں تا کہ ان کو آخرت کے عذاب کا سامنا کرنا نہ پڑے۔ جنسی تعلیم و تربیت کے مختلف طور و طریقے ہیں ۔۱۔ مستقیم طریقہ:اپنےبچوں کو ایک یاد دہانی کے بطور خاندان میں معاشرتی اور تعامل کا صحیح طریقہ سکھائیں ، خاندان میں مخالف جنس کے ساتھ تعلقات کی حد کیا ہے اور کس حد تک برقرار رکھنا ہے ۔۲۔غیر مستقیم طریقہ:بالواسطہ طریقہ کار میں ، لڑکوں کے کمرے کو لڑکیوں سے علیحدہ کرنا جس کی دین اسلام میں سفارش کی گئی ہے۔ لہذا والدین اورمربی کو بچوں کی جنسی تعلیم و تربیت کے لئے براہ راست اور بالواسطہ طریقے استعمال کرنا چاہیے۔