بچے کی پرورش والدین کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور اس پرورش پر اس کی ساری زندگی کی اچھائی اور برائی کا دارومدار ہے اس لئے اس ذمہ داری کے سلسلے میں والدین کو غفلت اور لاپرواہی سے اجتناب کرنا چاہئے۔ بچے کی ابتدائی عمر کا زیادہ تر حصہ ماں سے وابستہ ہوتا ہے اور پرورش کی زیادہ ذمہ داری ماں پر ہی عائد ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ماں کی تربیت کا اثر بچے کی پوری زندگی پر نمایاں نظر آتا ہے۔ اسی خوبی اور وصف کے پیش نظر حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش کی عورتوں کے متعلق ارشاد فرمایا: خَیْرُ نِسَآءٍ رَکبنَ الْاِبِلَ صَالِحُ نِسَآءِ قُرَیْشٍ اَحْنَهُ عَلٰی وَلَدٍ فِیْ صِغَرِهِ وَاَرعَهُ عَلٰی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِهِ.’’بہترین عورتیں جو اونٹوں پر سوار ہوتی ہیں قریش کی نیک عورتیں ہیں۔ یہ تمام عورتوں سے اپنی اولاد پر زیادہ شفیق ہیں اور اپنے پاس موجود خاوندوں کے مالوں کی بہت حفاظت کرتی ہیں‘‘۔
بچے کی پرورش کی ذمہ داری کا صرف یہ مطلب نہیں کہ ماں باپ اس کی جسمانی پرورش و نمو کا سامان میسر کریں بلکہ اس کی جسمانی نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن، اخلاق و کردار اور اس کی تعلیم و تادیب کا بھی مناسب بندوبست کریں۔ اگر والدین نے بچے کی جسمانی پرورش اور صحت و تندرستی کی دیکھ بھال تو کی لیکن اس کے باطن پر کوئی توجہ نہ دی تو انہوں نے معاشرہ میں صلاح کی بجائے فساد کا دائمی و ابدی بیج بودیا کیونکہ ایسا بچہ جوان ہونے پر اپنے خاندان اور معاشرے کے لئے دینی و اخلاقی لحاظ سے مفید ہونے کی بجائے مضر ثابت ہوگا۔