تاریخ بشر یت میں معاشی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے ہمیشہ سے کوشش کی گئی ہے۔دین اسلام نے بھی حیات انسانی کے تمام پہلوؤںکو سامنے رکھتے ہوئے بہترین اور جامع و مانع پروگرام مہیا کیا ہے۔قرآن کریم اور روایات، معاشیات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اپنے آپ کو خود کفیل کرنے ، اپنی عیال اور اپنے بچوں کو دوسروں کی محتاجی سے بچانے کا حکم دیتا ہے ۔عصری دنیا کے معاشی نظام انسان کو کام کےانتخاب اور دولت کے حصول میں آزاد چھوڑتے ہیں، اور اسے ہر قسم کے طریقوں سے یعنی دوسروں کے حقوق کی رعایت کے بغیر ، اخلاقی اصولوں اور اس کے سماجی اور دیگر دنیاوی نتائج کے بارے میں سوچے بغیر مال و دولت جمع کرنے کی اجازت دیتے ہیں جیسے : سود، رشوت ،جوا، ذخیرہ اندوزی، بلیک مارکیٹ وغیرہ۔ اس نظریہ کے ساتھ مال و دولت کسب کرنے سے تولیدی اور اخلاقی اور سیاسی بدعنوانی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسلامی معاشی نظام میں جو چیز سب سے زیادہ اہم ہے وہ کاروبار اورتجارت وغیرہ کا حلال ہونا ہے ۔ قرآن کریم ناجائز طریقوں سے مال و دولت جمع کرنے سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اپنی مالی دولت کی بنیاد "خالص ایمان اور تقویٰ" پر رکھیں اور اس طریقے سے روزی کمائیں جس سے انسان کی فطرت اورطبع سلیم راضی ہو، انسانی عقل اس کی تشویق کرے اور خدا وند متعال نے اسے جائز اورمباح قراردیا ہو۔اس مقالہ میں ہم دین اسلام میں معاشیات کی اہمیت ،حلال طریقہ سے کسب معاش کرنے کی تشویق پر موجود دلائل اورحرام طریقہ سے مال و دولت جمع کرنے کے دنیوی ،آخروی،انفرادی اوراجتماعی آثار اورنقصانات اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے ۔